آیت اللہ رمضانی: مسئلہ فلسطین امت اسلامیہ کا سب سے اہم اور زندہ مسئلہ ہے

اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل نے کہا: امام خمینی (ع) کی برکت سے قدس کا عالمی دن عالمی صیہونی استکبار کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک عظیم تحریک بن گیا ہے۔

 بین الاقوامی کانگریس "خواتین اور القدس" آج شام 26 اپریل 2022 بروز منگل کو قدس کے عالمی دن کے موقع پر فلسطین انتفاضہ کانفرنس ہال میں منعقد ہوئی۔

اس ویبینار میں اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل آیت اللہ "رضا رمضانی" نے قدس کے عالمی دن کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ہم ایک عظیم اور اہم دن کے موقع پر ہیں جسے عالمی یوم القدس کہا جاتا ہے۔ یوم قدس جس کا آغاز امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) نے دانشمندی اور بہادری سے کیا تھا اس دن کو عالمی یوم القدس قرار دیا گیا جس کا مقصد صہیونی قبضے کے خلاف فلسطینی عوام کی روحانی اور تبلیغی حمایت فراہم کرنا ہے۔ عالمی یوم قدس، امام خمینی کی بدولت عالمی صہیونی استکبار کا مقابلہ کرنے کی ایک عظیم تحریک بن گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: جیسا کہ امام خمینی اور رہبر معظم نے فرمایا ہے کہ مسئلہ فلسطین امت اسلامیہ کا سب سے اہم اور زندہ مسئلہ ہے۔ فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور اس پر تمام فلسطینی ادیان اور اقوام کے ریفرنڈم کی صورت میں ان کی مرضی کے مطابق حکومت کی جانی چاہیے اور یقینی طور پر صہیونی نظام جو کہ یہودیت میں بھی بدعت ہے اور اس کے لیے بالکل اجنبی ہے، کو ختم کیا جانا چاہیے۔ غاصب نظام نے فلسطین اور القدس پر قبضہ کر کے اس ملک کو فلسطینی قوم اور دیگر مسلم اقوام کے خلاف دہشت گردی کے اڈے میں تبدیل کردیا، اس لیے اس ظالم حکومت کا مقابلہ کرنا ظلم اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہے اور یہ عوامی فریضہ ہے۔

اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا: "گزشتہ صدی میں انسانیت کے خلاف ہونے والے جرائم میں سے یہ ایک منفرد جرم ہے کہ کسی کا ملک غصب کر لیا جائے اور اس کے لوگوں کو انتہائی گھناؤنے انداز میں قتل اور بے گھر کیا جائے۔ صہیونیوں کے 24 پروٹوکولز کو دیکھنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان ظالمانہ رویوں کی جڑ انہی عقائد سے پیدا ہوتی ہے، اس لیے غاصب صہیونی اپنے آپ کو اعلیٰ نسل اور مذہب سمجھتے ہیں اور دوسرے مذاہب اور انسانوں کے لیے ان کے یہاں کوئی قدر نہیں۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے وہ کسی بھی عمل اور جرم کی اجازت دیتے ہیں، اس لیے وہ اپنے آپ کو دنیا کا حکمران بنانے کے لیے اپنا تسلط پسندانہ نظام تشکیل دے رہے ہیں۔

آیت اللہ رمضانی نے صیہونی حکومت کے قیام میں مغرب کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا: مغربی حکومتیں جو پہلی عالمی جنگ کی فاتح تھیں اور پیرس کانفرنس میں مغربی ایشیائی خطہ کو جنگی غنیمت کے طور پر تقسیم کرنے کا سبب بنیں انہوں نے اس سرطانی پھوڑے کو تشکیل دیا۔ بدقسمتی سے انسانی ہمدردی اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور آزادی کے متلاشی دعوؤں کے باوجود عالمی اداروں نے فلسطینی بچوں کے قتل عام کے جرم کی روک تھام کے لیے کوئی کوشش نہیں کی، اس لیے تمام عالم اسلام اور علمائے کرام کا فرض ہے کہ وہ خاموش نہ رہیں۔ اور اپنے مذہبی اور قانونی فرض کو پورا کرنے کے لیے کوشاں رہیں۔

انہوں نے مزید کہا: "غیرت مند اور مذہبی مسلمانوں کو اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا چاہیے، بھر پور طاقت کے ذریعے ظالم صیہونی حکومت کا سامنا کرنا چاہیے، کیونکہ خونخوار دشمن کے ساتھ اقتدار اور طاقت کے بغیر کوئی بھی بات نہیں کر سکتا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کس طرح وہ حکومت، جس کی فوج نے صبرا اور شتیلا کیمپوں میں خون کی ہولی کھیلی تھی، حزب اللہ کی شدید ضربوں کا سامنا کرتے ہوئے، بھاری جانی نقصان کے ساتھ پسپائی پر مجبور ہوئی۔ اگر امت اسلامیہ اس مقدس جہاد کی مدد کرنا چاہتی ہے تو اس کے پاس جدوجہد جاری رکھنے اور جہادی تنظیموں کو منظم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا: آج دنیا میں ایک نیا نظام تشکیل پا رہا ہے اور سابقہ نظام جو دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہوا تھا بدل رہا ہے۔ مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے خطوں میں حالیہ سالوں کے دوران رونما ہونے والی سازشوں درحقیقت مزاحمتی محاذ کو سرگرم کرنے اور صیہونی حکومت کو موقع فراہم کرنے کی چالیں تھیں، لیکن مسئلہ فلسطین ایک بار پھر تمام متعلقہ جماعتوں اور عالم اسلام کے حریت پسندوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

آیت اللہ رمضانی نے طاقت کے توازن میں اسلامی دنیا کے حق میں تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: آج حساس ترین اسلامی خطوں میں دفاعی اور حملے کے لحاظ سے مزاحمتی قوتوں کی نشوونما اور ان کی خود اعتمادی اور خود آگہی میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے طاقت کا توازن عالم اسلام کے حق میں بدل چکا ہے۔ خطے کی بعض کٹھ پتلی حکومتوں کی ’’صدی کی ڈیل‘‘ کے ناکام منصوبے کو عملی جامہ پہنانے اور غاصب حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی مایوس کن کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی، بلکہ فرعون اور دوسرے ظالموں کی کوششوں سے صیہونی حکومت کی نابودی کی حرکت میں تیزی آئے گی۔

انہوں نے مزید کہا: مزاحمتی محاذ کے ظہور نے صیہونی حکومت کے لیے حالات کو مشکل بنا دیا ہے اور ان شاء اللہ مزید مشکل ہو جائے گی، لیکن اس حکومت کے حامیوں بالخصوص امریکہ نے اس ناجائز حکومت کا دفاع کرنے میں مختلف حربے اپنائے، اس لیے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے میں ہمیں یمن اور بحرین سمیت مزاحمتی محاذ کے دیگر فریقوں کے ساتھ گفتگو اور ان کی حمایت سے توجہ نہیں ہٹانی چاہیے۔

اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا: رجعت پسند عرب ممالک کی حکومتوں کو عوامی ارادے کی لہر کے مقابلے میں کھڑا کرنا ان حکومتوں کے لیے اچھا انجام نہیں ہوگا اور انہیں ان حکمرانوں کے انجام کو یاد رکھنا چاہیے جو گزشتہ سالوں میں دشمنوں کے ساتھ مذاکرات کی جھوٹی امیدوں اور سمجھوتے کی سازشوں کا شکار رہے ہیں۔ آج "کیمپ ڈیوڈ" کا تلخ انجام ہمارے سامنے ہے، اس لیے انہیں یاد دلایا جانا چاہیے کہ ان ناکام کوششوں سے وہ اپنے آپ کو قوم، اسلامی امت اور حریت پسندوں کی اجتماعی خواہش کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں بنا سکتے۔

آیت اللہ رمضانی نے صیہونی حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے عالم اسلام کو متحرک کرنے کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: جیسا کہ رہبر معظم نے فرمایا، ہم سب بشمول سیاستدان، دانشور، مذہبی اسکالر، جماعتوں اور گروہوں، پرجوش نوجوانوں اور دیگران کو اس عالمی تحریک میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ فلسطینی نوجوانوں نے حالیہ سالوں کے دوران القدس کے دفاع اور غاصب حکومت کی ناجائز پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا ہے تاکہ صیہونی حکومت کی فوج جو کبھی ایک ناقابل تسخیر اور طاقتور فوج سمجھی جاتی تھی، اب ان کے سامنے بے بس ہے۔ عوامی مزاحمت کی وجہ سے اسے پسپائی اختیار کرنی پڑ رہی ہے۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل آج کے ہر مسلمان کا ہدف ہے، اور یہ تہذیب اسلامی اقوام کی عظیم صلاحیتوں اور مسلم ممالک کے تعاون سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اور اس باہمی تعاون کا محور مسئلہ فلسطین ہے، رہبر معظم کے بقول، یہ وہی حقیقت ہے جس نے رہبر کبیر امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نورانی دل کو رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم قدس کا نام دینے کی طرف رہنمائی کی۔ امید ہے کہ فلسطینی عوام جلد ہی بیت المقدس میں قابض حکومت کی نابودی کے ساتھ اپنے ناقابل تنسیخ حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

Leave a comment

You are commenting as guest.

Ahl Al-Bayt World Assembly

The Ahl al-Bayt World Assembly  is an international non-governmental organization (INGO) that was established by a group of Shiite elites under the supervision of the great Islamic authority of the Shiites in 1990 to identify, organize, educate and support the followers of Ahl al-Bayt.

  • Tehran Iran
  • 88950827 (0098-21)
  • 88950882 (0098-21)

Contact Us

Issue
Email
The letter
4-3=? Captcha